آگ کی لپٹیں ہیں مجھ میں موم کا پتلا ہے تو
آگ کی لپٹیں ہیں مجھ میں موم کا پتلا ہے تو
پاس میرے آ رہا ہے کتنا دیوانہ ہے تو
اس پہ کتنے ناگ بھی پھنکارتے ہیں دیکھ لے
جس شجر کے سائے میں آ کر ابھی لیٹا ہے تو
تیرے رخ پر ہیں تھکاوٹ کے جو یہ آثار سے
کیا کوئی لمبا سفر کر کے ابھی لوٹا ہے تو
یہ تغیر کس لئے کیا حادثہ گزرا ہے بول
موم سا تھا نرم اب کیوں سخت پتھر سا ہے تو
دل میں اک پیہم کھٹک ہوتی ہے تیری یاد سے
ساتھ تھا تو پھول تھا بچھڑا تو اک کانٹا ہے تو
دور نو کا جو چلن ہے تو بھی تھوڑا سیکھ لے
بے سبب ہی غیر کی مشکل میں کیوں پڑتا ہے تو
سانپ کا کاٹا ہوا ہوتا تو بچ جاتا مگر
تو نہ بچ پائے گا عکسؔ انسان کا کاٹا ہے تو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.