آغاز جوانی ہے ذرا دیکھ کے چلئے
خطرے کی نشانی ہے ذرا دیکھ کے چلئے
ہر سمت سے امڈا ہے تلاطم ہی تلاطم
دریا میں روانی ہے ذرا دیکھ کے چلئے
یہ عمر ہی ایسی ہے کہ رہتا نہیں کچھ ہوش
اک جوش جوانی ہے ذرا دیکھ کے چلئے
چھونے سے نہ مرجھائے کہیں ڈر ہے اسی کا
پھولوں سی جوانی ہے ذرا دیکھ کے چلئے
شوخی ہے شرارت ہے قیامت ہے ادا ہے
رنگین جوانی ہے ذرا دیکھ کے چلئے
ان مست اداؤں کی نزاکت کی حیا کی
دنیا بھی دوانی ہے ذرا دیکھ کے چلئے
مرمر سا حسیں جسم ہے اک تاج محل سا
کیا خوف جوانی ہے ذرا دیکھ کے چلئے
یوں خود پہ اکڑنا بھی نہیں ٹھیک جہاں میں
یہ حسن تو فانی ہے ذرا دیکھ کے چلئے
جاں اپنی گنوا دے گا یہاں آپ کی خاطر
رامشؔ نے یہ ٹھانی ہے ذرا دیکھ کے چلئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.