آغوش کا حظ پیکر و دیبا نے اٹھایا
آغوش کا حظ پیکر و دیبا نے اٹھایا
بوسہ کا مزا ساغر صہبا نے اٹھایا
کس کے دل محزوں کو ستایا تھا کہ اک عمر
خجلت سے نہ سر زلف چلیپا نے اٹھایا
شاید مہ کنعان کی نظر آ گئی تصویر
کہنا ہے عبث رنج زلیخا نے اٹھایا
ظالم چمن آرا کو ہے گلچیں کی اجازت
کیوں شور عبث بلبل شیدا نے اٹھایا
تھا خوف خدا دشمن خونخوار کے دل میں
بیڑا مری ایذا کا احبا نے اٹھایا
ہنستی تھی کھڑی سیکڑوں صف روز قیامت
سر خاک سے جس دم ترے رسوا نے اٹھایا
اغیار کا منہ تھا مجھے محفل سے اٹھاتے
سچ یوں ہے تری رنجش بے جا نے اٹھایا
اے دوست ترے دل میں کبھی رحم نہ آیا
سو بار مجھے خاک سے اعدا نے اٹھایا
بیمار محبت کو اب اللہ شفا دے
سنتے ہیں کہ ہاتھ اس سے مسیحا نے اٹھایا
آمیں کی صدا حضرت عزت میں ہے ہر سو
کیا دست دعا عاشق شیدا نے اٹھایا
ہے قدر سخن گو کہ پس مرگ شہیدیؔ
تابوت مرا دوش پہ سوداؔ نے اٹھایا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.