آئی خزاں تو باد صبا کھینچ لی گئی
آئی خزاں تو باد صبا کھینچ لی گئی
جیسے گلوں کے لب سے دعا کھینچ لی گئی
کالا نقاب عدل کی آنکھوں پہ باندھ کر
اس کے بدن پہ جو تھی قبا کھینچ لی گئی
لگنے لگا ہے مل کے یوں اہل وطن سے اب
جیسے ہر ایک دل سے وفا کھینچ لی گئی
غارت گری کے بعد تماشے کے واسطے
باقی تھی جن سروں پہ ردا کھینچ لی گئی
تم نے زباں کو اذن تکلم نہیں دیا
اس نے جو تم کو دی تھی صدا کھینچ لی گئی
ہم کو نہ زندگی پہ نہ قدرت قضا پہ ہے
ہم سے ہماری یہ بھی رضا کھینچ لی گئی
احساس اس کے چھوڑ کے جانے پہ یوں ہوا
ساون سے جیسے کالی گھٹا کھینچ لی گئی
پہلے ہزار غم ہوئے نازل ہمیں پہ پھر
تھی سب غموں کی جو بھی دوا کھینچ لی گئی
وہ ہاتھ کیا اٹھے مری پرسش میں دوستو
سر سے مرے ہر ایک بلا کھینچ لی گئی
محنت کشوں نے خوب منور کئے محل
محنت کشوں سے ان کی ضیا کھینچ لی گئی
خود کو بھی دیکھتا ہوں میں حیرت سے آج کل
ملنے کی میری مجھ سے ادا کھینچ لی گئی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.