آئی سحر قریب تو میں نے پڑھی غزل
آئی سحر قریب تو میں نے پڑھی غزل
جلنے لگے ستاروں کے بجھتے ہوئے کنول
بیتاب ہے جنوں کہ غزل خوانیاں کروں
خاموش ہے خرد کہ نہیں بات کا محل
راہوں میں جوئے خوں ہے رواں مثل موج مے
ساقی یقیں نہ ہو تو ذرا میرے ساتھ چل
ہم رند خاک و خوں میں اٹے ہاتھ بھی کٹے
نکلے نہ اے بہار ترے گیسوؤں کے بل
کچھ بجلیوں کا شور ہے کچھ آندھیوں کا زور
دل ہے مقام پر تو ذرا بام پر نکل
اب ترک دوستی ہی تقاضا ہے وقت کا
اے یار چارہ ساز مری آگ میں نہ جل
اے التفات یار مجھے سوچنے تو دے
جینے کا ہے مقام کہ مرنے کا ہے محل
دل پر ہے ایسا بوجھ کہ کھلتی نہیں زباں
آندھی ہے ایسی تیز کہ جلتا نہیں کنول
کیسے دئے جلائے غم روزگار نے
کچھ اور جگمگاتے غم یار کے محل
فرمان شہریار کی پروا نہیں مجھے
ایمائے عاشقاں ہو تو عابدؔ پڑھے غزل
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.