آئیے جلوۂ دیدار کے دکھلانے کو
آئیے جلوۂ دیدار کے دکھلانے کو
پھونک دے برق تجلی مرے کاشانے کو
دیکھیے کون سی جا یار کا ملتا ہے پتہ
کوئی کعبے کو چلا ہے کوئی بت خانے کو
تیری فرقت میں تصور ہے یہ بے دردی کا
خواب ہم جانتے ہیں نیند کے آ جانے کو
بعد میرے جو ہوا دشت میں مجنوں کا گزر
رو دیا دیکھ کے خالی مرے ویرانے کو
کام آ جاتی ہے ہم بزمی بھی روشن دل کی
شمع ہم رنگ بنا لیتی ہے پروانے کو
آج پھر شہر کے کوچے نظر آتے ہیں اداس
کس طرف لے گئی وحشت ترے دیوانے کو
اے جنوں تنگ ہوئی وسعت صحرا تجھ سے
اب کہاں جائے طبیعت کوئی بہلانے کو
گل پہ بلبل تھا کہیں شمع پہ پروانہ تھا
ہم نے ہر رنگ میں دیکھا ترے پروانے کو
وا شد دل نہ ہوئی غنچۂ خاطر نہ کھلا
کون سے باغ میں آئے تھے ہوا کھانے کو
میں نے جب وادئ غربت میں قدم رکھا تھا
دور تک یاد وطن آئی تھی سمجھانے کو
- کتاب : Noquush (Pg. B428 E438)
- مطبع : Nuqoosh Press Lahore (May June 1954)
- اشاعت : May June 1954
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.