آج بستی میں تری سانحہ ایسا دیکھا
ہم نے ہر آنکھ میں بپھرا ہوا دریا دیکھا
جانے تعبیر ہو اب کیسی خدا خیر کرے
رات پھر خواب میں کھلتا ہوا غنچہ دیکھا
اس نے پوچھا بھی نہیں راہ کی کیوں دھول ہوئے
عمر بھی بیٹھ کے جس شخص کا رستہ دیکھا
جو پہاڑوں سے چلے زیست کا ساماں لے کر
ہم نے ہر جھرنے میں اک نور کا دھارا دیکھا
آئنہ کہنے لگا کان میں چپکے چپکے
بے عمل شخص کوئی اور نہ تجھ سا دیکھا
پھول شاخوں پہ کھلے آپ سے اور پھر نہ ملے
موسم ہجر نہ کچھ تو نے بھی سوچا دیکھا
جانے کیوں کر وہ پریشان سا رہتا ہے رضاؔ
جب بھی دیکھا ہے کسی سوچ میں ڈوبا دیکھا
- کتاب : اردو غزل کا مغربی دریچہ(یورپ اور امریکہ کی اردو غزل کا پہلا معتبر ترین انتخاب) (Pg. 359)
- مطبع : کتاب سرائے بیت الحکمت لاہور کا اشاعتی ادارہ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.