آج بے پردہ نظر آنے میں کیا رکھا ہے
آج بے پردہ نظر آنے میں کیا رکھا ہے
یہ شب وصل ہے شرمانے میں کیا رکھا ہے
یہ تری نرگسی آنکھوں کی کشش ہے شاید
ورنہ ساقی ترے پیمانے میں کیا رکھا ہے
ساز الفت پہ وفاؤں کا ترانہ چھیڑو
ظلم اور جور کے افسانے میں کیا رکھا ہے
ایک ہیں اس کی نگاہوں میں عدو ہو کہ رقیب
دل تو پھر دل ہے دل آ جانے میں کیا رکھا ہے
ان کا قاصد ہے بضد ساتھ میں چلئے کاشفؔ
کل بھی آنا ہے تو اب آنے میں کیا رکھا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.