آج ایک مرنے والا کہتا تھا بیکلی میں
آج ایک مرنے والا کہتا تھا بیکلی میں
حسرت مری نہ نکلی تھوڑی سی زندگی میں
تکلیف بھی اسی میں آرام بھی اسی میں
دونوں کو ہم نے دیکھا دو دن کی زندگی میں
قدرت یہ کہہ رہی ہے کچھ کر لے زندگی میں
فطرت شناس ہو کر کھویا ہے تو خوشی میں
گزرا بڑے مزے سے افلاس کا زمانہ
پیتا تھا خون دل کا میں دور مفلسی میں
گلشن جو ہو گیا ہے نذر خزاں ہمارا
پنہاں تھا راز ہستی شاید کلی کلی میں
مطرب نواز فطرت کہتی ہے اہل دل سے
تار نفس کو چھیڑو نغمہ ہے بس اسی میں
ساقی کو بھول جاؤں مطرب کو بھول جاؤں
کچھ اور بھی اضافہ ہو میری بے خودی میں
باغ جہاں سے کیوں کر اہل جہاں نہ خوش ہوں
ہر گل میں رنگ تیرا بو تیری ہر کلی میں
چرخ بریں پہ فوراً پی کر مرا پہنچنا
سیر فلک نما تھی ہر جام سرمدی میں
آواز نے کو سن کر بے خود ہوا وفاؔ بھی
بھر دی صدائے دل کش یہ کس نے بانسری میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.