آج ہر چہرے پہ پھیلا ہوا اک ڈر کیوں ہے
آج ہر چہرے پہ پھیلا ہوا اک ڈر کیوں ہے
گھر میں رہتے ہوئے ہر آدمی بے گھر کیوں ہے
اک دہکتا ہوا لاوا ہے اگرچہ اندر
منجمد برف کے کہسار سا باہر کیوں ہے
کیوں چلی جاتی ہے اس کو مرے حصے کی خوشی
اس کا ہر درد مرے دل کو میسر کیوں ہے
لوگ کہتے ہیں محبت ہے ارم کا تحفہ
آج یہ پیار جہنم کے برابر کیوں ہے
کیوں ترے نام پہ لڑتے ہیں زمانے والے
یا خدا چاروں طرف خوف کا منظر کیوں ہے
نرگسی آنکھوں میں اک جھیل نہیں شعلے ہیں
مرمریں ہاتھوں میں گل ہونا تھا خنجر کیوں ہے
بے گناہی کی مری جس میں تھی ہر دستاویز
بھیڑ کے ساتھ اسی ہاتھ میں پتھر کیوں ہے
چاند کو باہوں میں لینے کی للک ہے شاید
آج بپھرا ہوا اس درجہ سمندر کیوں ہے
خود کو جذبات سے عاری میں سمجھ بیٹھا تھا
پھر یہ احساس میں اک دھندلا سا پیکر کیوں ہے
آج سمجھا ہوں زمانے کی روش ہے کیسی
جو تھا بے داغ سر دار وہی سر کیوں ہے
تیری مے ریز نگاہی کا کہیں نام نہیں
طنز ساقی پہ ہے بدنام یہ ساغر کیوں ہے
رنگ و بو میں تو ہے وہ رشک چمن جان چمن
اپنی گفتار میں وہ اتنا ستم گر کیوں ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.