آج کے ماحول میں انسانیت بدنام ہے
آج کے ماحول میں انسانیت بدنام ہے
یہ عناد باہمی کا ہی فقط انجام ہے
حق شناسی کا چلن ہم میں نہیں باقی رہا
صبح اپنی پر الم ہے پر خطر ہر شام ہے
حیف بربادیٔ گلشن اپنے ہی ہاتھوں ہوئی
مفت میں باد خزاں کے سر پہ کیوں الزام ہے
دھندلی دھندلی سی فضا ہے مہر اور اخلاص کی
اب رفاقت آشتی اور دوستی گمنام ہے
تپتے صحرا سے تو بچ کر آ گئے تھے ہم مگر
اب قدم کیسے بڑھائیں پر خطر ہر گام ہے
کیا گرانی اور ارزانی کی ہم باتیں کریں
پانی مہنگا ہے یہاں اور خون سستے دام ہے
باپ سے بچے اے محسنؔ منحرف ہونے لگے
تربیت اور علم کے فقدان کا انجام ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.