آج رنگ بھی لائی دل کی بزم آرائی
آج رنگ بھی لائی دل کی بزم آرائی
چھٹ گیا ہے ہاتھوں سے دامن شکیبائی
دیدۂ محبت کی اشک ریزیاں کیا تھیں
خشک ہو گئی کیونکر دو جہاں کی پہنائی
یہ بھی اک بہانہ تھا تم کو آزمانے کا
ورنہ جینے والوں کو موت بھی نہ راس آئی
وہم سے گزرنا تھا اعتبار کرنا تھا
ٹھوکریں نہ کھائے گی میری جادہ پیمائی
محو کر دیا کس نے شور میکدہ سارا
کس نے ہوش کھویا ہے کس کو تیری یاد آئی
مٹ گئی ہے بے کیفی بال و پر کی ایما سے
یا نگاہ کی حسرت قسمتیں بدل لائی
سرمہ بن گئے انجمؔ داغ ہائے پیشانی
کون چھین سکتا ہے سنگ در کی بینائی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.