آج شاید زندگی کا فلسفہ سمجھا ہوں میں
آج شاید زندگی کا فلسفہ سمجھا ہوں میں
ہوں ضرورت زندگی کی اس لئے زندہ ہوں میں
ہے مری تخلیق میں عنصر بغاوت کا کوئی
جس جگہ پابندیاں تھیں اس جگہ پہنچا ہوں میں
اک عجب سا ہے تعلق اس کے میرے درمیاں
ایسا لگتا ہے کہ اس کی ذات کا حصہ ہوں میں
ہیں نمایاں جس کے چہرے پر حقیقت کے نقوش
تیرے شہر خواب میں وہ آدمی تنہا ہوں میں
چھا گیا ہوں خوف بن کر اپنے ہی اعصاب پر
اور کبھی بے خوف ہو کر خوف سے نکلا ہوں میں
ہیں زمیں پر ہر طرف میرے ہی قدموں کے نشاں
روز اول سے ہی سالمؔ کوئی آوارہ ہوں میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.