آج وہ بے حجاب نکلا ہے
آج وہ بے حجاب نکلا ہے
یوں لگا ماہتاب نکلا ہے
نیند کی کیسی پہرے داری ہے
بند آنکھوں سے خواب نکلا ہے
پڑ گئی ہے دراڑ رشتوں میں
جانے کب کا حساب نکلا ہے
زندگانی کے بہتے دریا میں
سانس بن کر حباب نکلا ہے
اس کا خط جب بھی ہم نے کھولا ہے
ایک تازہ گلاب نکلا ہے
اس کے رخ سے نقاب الٹا تو
دوسرا اک نقاب نکلا ہے
جلتی آنکھوں سے برسے انگارے
تب کہیں انقلاب نکلا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.