آخر شب بھی کسی خواب کی امید میں ہوں
آخر شب بھی کسی خواب کی امید میں ہوں
اک نئی صبح نئے دن نئے خورشید میں ہوں
مجھ سے وہ کیسے کرے حرف و حکایت آغاز
میں ابھی سلسلۂ حرف کی تمہید میں ہوں
مجھ میں بھی فقر کی ہلکی سی جھلک ملتی ہے
ہے مجھے فخر کہ اک صورت تقلید میں ہوں
میں نے دیکھا ہے اسے یا نہیں دیکھا اس کو
میں ابھی تک تو اسی کشمکش دید میں ہوں
میری ہر سانس ہے اثبات و نفی کی تکرار
مجھ کو کیا علم کہ کب حالت تردید میں ہوں
سر کشیدہ ہوں تو کیا مد مقابل ہوں تو کیا
میرے قاتل میں تری تیغ کی تائید میں ہوں
خشک شاخوں میں ابھی ذوق نمو باقی ہے
میں نئی رت سے پھر اک عہد کی تجدید میں ہوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.