آخر اس زیست کے طوفاں سے گزر جانا ہے
آخر اس زیست کے طوفاں سے گزر جانا ہے
موج بن کر ہمیں اس پار اتر جانا ہے
توڑ دی میں نے تو اس موڑ پہ زنجیر نفس
اے مری زیست بتا تجھ کو کدھر جانا ہے
خواہ توہین چمن ہو کہ ہو توقیر چمن
نکہت گل کو بہر حال بکھر جانا ہے
آئی ہے شام یقیں کتنے تقاضے لے کر
اک پرندے کی طرح ہم کو بھی گھر جانا ہے
میں نہ لکھوں گا کبھی عارض و لب کے قصے
میں نے اس قید کو توہین ہنر جانا ہے
وہ مرے پاس نہ آئے نہ مرے ساتھ چلے
جس کو دو چار قدم چل کے ٹھہر جانا ہے
کوئی جادہ ہے نہ منزل ہے نظر میں جگدیشؔ
اب اسی سوچ میں بیٹھا ہوں کدھر جانا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.