آندھی میں بساط الٹ گئی ہے
آندھی میں بساط الٹ گئی ہے
گھنگھور گھٹا بھی چھٹ گئی ہے
وہ گرد اڑائی ہے دکھوں نے
دیوار حیات اٹ گئی ہے
خنجر کی طرح تھی ریگ صحرا
خیمے کی طناب کٹ گئی ہے
میراث گلاب تھی جو خوشبو
جھونکوں میں ہوا کے بٹ گئی ہے
پیاسوں کا ہجوم رہ گیا ہے
اک تیر سے مشک پھٹ گئی ہے
اک اور بھی دن گزر گیا ہے
میعاد عذاب گھٹ گئی ہے
ساحل کی بڑھا کے تشنگی موج
دریا کی طرف پلٹ گئی ہے
پھیلاؤں گا پاؤں کیا میں گلزارؔ
چادر ہی مری سمٹ گئی ہے
- کتاب : Funoon (Monthly) (Pg. 229)
- Author : Ahmad Nadeem Qasmi
- مطبع : 4 Maklood Road, Lahore (25Edition Nov. Dec. 1986)
- اشاعت : 25Edition Nov. Dec. 1986
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.