آنکھ ہے اک کٹورا پانی کا
آنکھ ہے اک کٹورا پانی کا
اور یہ حاصل ہے زندگانی کا
رائیگاں کر گیا مجھے آخر
خوف ایسا تھا رائیگانی کا
چل نکلتا ہے سلسلہ اکثر
خوش گمانی سے بد گمانی کا
درد بوتا ہوں زخم کھلتے ہیں
ہے بہت شوق باغ بانی کا
کیا ٹھکانہ غم و خوشی کا ہو
دل علاقہ ہے لا مکانی کا
جا کے دریا میں پھینک آیا ہوں
یہ کیا ہے تری نشانی کا
جس کا انجام ہی نہیں کوئی
میں ہوں کردار اس کہانی کا
مدعا نظم ہو نہیں پایا
شعر دھوکہ ہے ترجمانی کا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.