آنکھ کی ضد کو ہمیشہ ہی سے بہلایا گیا
آنکھ کی ضد کو ہمیشہ ہی سے بہلایا گیا
ایک چہرے کو کئی چہروں میں دکھلایا گیا
میرے پاؤں نت نئے رستوں سے تھے کب آشنا
صدیوں پہلے تھا جہاں مجھ کو وہیں پایا گیا
پھر ہوئی بیدار خواہش آنکھ میں آئی چمک
پھر کسی کو دھوپ سا ملبوس پہنایا گیا
سننے والوں نے تو دیکھا بھی نہیں تھا چونک کر
راز سینے سے نکل کے ہونٹ پر آیا گیا
اس قدر تھا سنگ دل جیسے کسی قاتل کا دل
مجھ سے وہ ماحول اے خالدؔ نہ اپنایا گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.