آنکھ لگ جاتی ہے پھر بھی جاگتا رہتا ہوں میں
آنکھ لگ جاتی ہے پھر بھی جاگتا رہتا ہوں میں
نیند کے عالم میں کیا کیا سوچتا رہتا ہوں میں
تیرتی رہتی ہیں میرے خوں میں غم کی کرچیاں
کانچ کی صورت بدن میں ٹوٹتا رہتا ہوں میں
سانپ کے مانند کیوں ڈستی ہے باہر کی فضا
کیوں حصار جسم میں محبوس سا رہتا ہوں میں
پھینکتا رہتا ہے پتھر کون دل کی جھیل میں
دائرہ در دائرہ کیوں پھیلتا رہتا ہوں میں
ٹہنیاں کٹ کٹ کے اگ آتی ہیں پھر سے درد کی
اک صنوبر کرب کا بن کر ہرا رہتا ہوں میں
اس سے بڑھ کر اور کیا ہوتی پریشانی مجھے
یہ ستم کم ہے کہ خود سے بھی جدا رہتا ہوں میں
- کتاب : Ghazal Calendar-2015 (Pg. 07.07.2015)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.