آنکھ مانگی تو مجھے دے دیا دریا اس نے
آنکھ مانگی تو مجھے دے دیا دریا اس نے
ہونٹ مانگے تو دیا پیاس کا صحرا اس نے
بستر خواب پہ آرام کی خواہش تھی بہت
تحفۂ درد محبت سے نوازا اس نے
زندگی بھر کے لئے رزق مرا بند کیا
صبر کا دے کے مجھے ایک نوالا اس نے
بات تنہائی سے کرنے کا دیا اذن مجھے
بزم احباب میں خاموش بٹھایا اس نے
چند سانسوں کا جہاں خلق کیا میرے لئے
قوت بازو و پر دے کے اڑایا اس نے
چاہتا تھا کہ ہر اک فن میں مکمل ہو جاؤں
میں جو گرنے لگا مجھ کو نہ سنبھالا اس نے
کو بہ کو پھرتے رہے نخل جنوں مل نہ سکا
شہر ادراک میں برسوں تو گھمایا اس نے
میں نے دیکھا نہیں احساس ہوا ہے مجھ کو
کھول رکھا ہے مرے گھر میں دریچہ اس نے
وقت کے ساتھ ہوا جاتا ہے گہرا یہ سوال
کیوں دکھایا تھا چمکتا ہوا تارا اس نے
اس کے چہرے کی تلاوت سے نہ غافل ہو جاؤں
اس لئے آئنہ ہاتھوں سے گرایا اس نے
زندگی جیسے گزرنی تھی وہ گزری یاورؔ
گل صفت خواب مجھے روز دکھایا اس نے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.