آنکھوں میں جتنے چاہے سمندر بلا کے رکھ
آنکھوں میں جتنے چاہے سمندر بلا کے رکھ
خاک زمیں سے اشک تو اپنے بچا کے رکھ
دے شکل کوئی مٹی کو دست ہنر شناس
کوشش کے چاک پر ابھی خواہش چڑھا کے رکھ
نایاب چاہتوں کا خزانہ ہے خود وہ ذات
ماں کی ہتھیلی چوم کے اس پر کما کے رکھ
محنت سے سب سمیٹ تو دنیا کا سیم و زر
اور سن رسیدہ باپ کے قدموں میں لا کے رکھ
سب کور چشم لوگ ہیں حالت پہ اپنی خوش
یہ عقل کا چراغ یہاں پر بجھا کے رکھ
احساس و فکر کی نہ ہو دھڑکن عذاب جاں
بے جان دل کو ایسا کھلونا بنا کے رکھ
آ دیکھ ہیں قتیل ستم ہائے دوستاں
ترکش میں تیر سارے تو اپنی ادا کے رکھ
معلوم تھا تجھے کہ چراغوں میں دم نہیں
کس نے کہا تھا سامنے ان کو ہوا کے رکھ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.