آنکھوں میں میل جول کا نقشہ سمٹ گیا
آنکھوں میں میل جول کا نقشہ سمٹ گیا
دیکھا اسے تو برسوں کا رستہ سمٹ گیا
میرے قریب کوئی بھی اپنا نہیں رہا
وہ کیا گیا کہ ایک زمانہ سمٹ گیا
اس گھر کے موسموں کو پتا بھی نہ چل سکا
دیوار جب اٹھائی تو کیا کیا سمٹ گیا
الفاظ ڈھونڈتے ہی رہے طرز گفتگو
وہ حسن تھا کہ کوزے میں دریا سمٹ گیا
وہ دل نہیں رہے نہ رہی اب وہ دل لگی
ہر شخص اپنے آپ میں اتنا سمٹ گیا
اسباب بٹ گیا تھا بچھڑنے کے ساتھ ساتھ
کیسا بڑا مکان تھا کتنا سمٹ گیا
خرم علیؔ یہاں سے وہاں تک کا فاصلہ
بس دو قدم چلے تھے کہ رستہ سمٹ گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.