آنکھوں میں وہ خواب نہیں بستے پہلا سا وہ حال نہیں ہوتا
آنکھوں میں وہ خواب نہیں بستے پہلا سا وہ حال نہیں ہوتا
اب فصل بہار نہیں آتی اور رنج و ملال نہیں ہوتا
اس عقل کی ماری نگری میں کبھی پانی آگ نہیں بنتا
یہاں عشق بھی لوگ نہیں کرتے یہاں کوئی کمال نہیں ہوتا
ہم آج بہت ہی پریشاں ہیں اس وقت کے پھیر سے حیراں ہیں
ہمیں لے کے چلو کسی ایسی طرف جہاں ہجر و وصال نہیں ہوتا
جتنی ہے ندامت تم کو اب اتنے ہی پشیماں ہم بھی ہیں
تم اس کا جواب ہی کیوں سوچو ہم سے جو سوال نہیں ہوتا
وہ بستی بھی اک بستی تھی یہ بستی بھی اک بستی ہے
وہاں ٹوٹ کے دل جڑ جاتے تھے یہاں کوئی خیال نہیں ہوتا
اس شہر کی ریت کو عام کریں جھک جھک کے سبھی کو سلام کریں
ہر کام تو ہم کر لیتے ہیں یہی کام ہلالؔ نہیں ہوتا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.