آنکھوں سے کسی خواب کا رشتہ ہی نہیں تھا
آنکھوں سے کسی خواب کا رشتہ ہی نہیں تھا
اس آئنے میں عکس ٹھہرتا ہی نہیں تھا
کیوں دیکھ رہا تھا اسے چپ چاپ زمانہ
رخصت جو ہوا صرف ہمارا ہی نہیں تھا
مہمان بنایا ہی نہیں دشت نے ورنہ
ریتوں سے جدائی کا ارادہ ہی نہیں تھا
وہ چھوڑ گیا شہر تو کیوں دل میں چبھن ہے
اس پر تو ہمارا کوئی دعویٰ ہی نہیں تھا
منسوب اسے کرتے ہو کیوں ہم سے رفیقو
ایسا تو کوئی بیچ میں وعدہ ہی نہیں تھا
یہ سوچ کے اس راہ میں ہم ہو گئے تنہا
اس بھیڑ میں اپنا کوئی چہرہ ہی نہیں تھا
ہم شہر ستم گر کو کہاں چھوڑ کے جاتے
جب اس کے علاوہ کوئی صحرا ہی نہیں تھا
پتھر نہ ہوا موم فہیمؔ اب تو یہ مانو
خورشید ہنر میں کوئی شعلہ ہی نہیں تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.