آنسوؤں کا ایک حلقہ کھینچ کر
آنسوؤں کا ایک حلقہ کھینچ کر
بت بنا بیٹھا ہوں صدمہ کھینچ کر
ایک کر ڈالا ہے سب ماضی و حال
وقت کی ڈوری کو تھوڑا کھینچ کر
پیاس کو بہلا رہا ہوں دیر سے
ریت پر تصویر دریا کھینچ کر
ملتوی کرتے رہے ہم موت کو
اک ذرا سانسوں کو الٹا کھینچ کر
جلد لے جا یار مستقبل مرے
حال سے سارا گزشتہ کھینچ کر
بند کر دیتا ہوں مٹی کے کواڑ
اک ذرا سا آب تازہ کھینچ کر
لا مری پہچان واپس کر مجھے
ورنہ دوں گا خالی چہرہ کھینچ کر
میں بھی مٹی کی طرح مضبوط ہوں
دیکھ لے سارا زمانہ کھینچ کر
آخر کار اپنی آنکھیں بند کیں
ایک سرد آہ تماشہ کھینچ کر
فرحت احساسؔ ایک مقناطیس ہے
لے گیا ہے جانے کیا کیا کھینچ کر
- کتاب : محبت کرکے دیکھو نہ (Pg. 50)
- Author :فرحت احساس
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2019)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.