آنسوؤں کے سیل میں یوں پتلیاں چلنے لگیں
آنسوؤں کے سیل میں یوں پتلیاں چلنے لگیں
جیسے آنکھوں کی ندی میں کشتیاں چلنے لگیں
ان سے مل کر دل کو میرے آج کچھ ایسا لگا
جسم کے پھولوں پہ جیسے تتلیاں چلنے لگیں
میری آنکھوں کا ہر اک منظر ہے یوں خانہ بدوش
شب کے سناٹے میں جیسے بستیاں چلنے لگیں
چھن گئے سب خواب میرے نیند کی آغوش سے
جب لگا مجھ کو کہ گھر کی کھڑکیاں چلنے لگیں
ان کی زلفوں کی گھٹائیں گھر کے آئیں اور بس
خانۂ دل میں ہمارے بجلیاں چلنے لگیں
خواب میں دیکھا ہے میں نے آج پھر کل کی طرح
دشت کی سوکھی ندی میں مچھلیاں چلنے لگیں
جسم کو میرے مقید کر لیا ظالم نے جب
میرے ذہن بے رسا میں بیڑیاں چلنے لگیں
اپنے کانوں پر یقیں آیا مجھے کل رات کو
جب ہوا کے دوش پر سے سیٹیاں چلنے لگیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.