آرزوئے عیش کوشی اب تو اک آزار ہے
آرزوئے عیش کوشی اب تو اک آزار ہے
گھر کے باہر گھر کے اندر ہر طرف بازار ہے
منتظر ہے ایک ساحل اور شکستہ سا وجود
بیچ دریا میں کھڑا ہے آر ہے نہ پار ہے
سر جھکایا جب بھی میں نے وہ پشیماں ہو گیا
ہار میری جیت ہے اور جیت اس کی ہار ہے
بڑھ گئی اس کی کشش جب در قفس کے وا ہوئے
چھوڑ دینا اب تو اس کو اور بھی دشوار ہے
ڈوب جائیں گے جزیرے کس کو اس کی فکر ہے
بس پگھلتی برف ہے اور گرمئ بازار ہے
درہم و دینار سے اب روشنی ہوتی نہیں
گھر کی چوکھٹ کے لئے گھر کا دیا درکار ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.