آرزو جرم ہے مدعا جرم ہے
آرزو جرم ہے مدعا جرم ہے
اس فضا میں امید وفا جرم ہے
ہر طرف ہیں محبت کی مجبوریاں
ابتدا جرم ہے انتہا جرم ہے
ذوق دیدار پر لاکھ پابندیاں
دیکھ کر پھر انہیں دیکھنا جرم ہے
زندگی بھر کی نیندیں اچٹ جائیں گی
سایۂ زلف میں بیٹھنا جرم ہے
ہر سزا کو کسی کی عطا مانئے
یہ بھی کیوں پوچھئے کون سا جرم ہے
آنکھ اٹھا کر انہیں دیکھیے کس طرح
سر اٹھانے کا بھی حوصلہ جرم ہے
ان کے جلووں کا جب سامنا ہو گیا
پھر کسی اور کا سامنا جرم ہے
خامشی بھی سلیقہ ہے فریاد کا
ان کے جور و ستم پر گلا جرم ہے
ایسے ماحول میں آ گئے ہم جہاں
اپنے ماحول کا جائزہ جرم ہے
مسلک عشق ہے پیروی وفا
حکمت و مصلحت سوچنا جرم ہے
آگہی شرط ہے گمرہی کے لئے
گمرہی پر پتا پوچھنا جرم ہے
دعوئ عشق ہے جرم اول اگر
انحراف وفا دوسرا جرم ہے
ان کی شان کرم کہہ رہی ہے رشیؔ
ان سے اب کوئی بھی التجا جرم ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.