آرزو مٹ نہ سکی عمر بسر ہونے تک
آرزو مٹ نہ سکی عمر بسر ہونے تک
شمع جلتی رہی بجھ بجھ کے سحر ہونے تک
عالم شاخ و گل و برگ چمن سے پوچھو
ایک دانے پہ جو گزری ہے ثمر ہونے تک
صبر کہتا ہے کہ اب نالوں کو رخصت دیجے
ضبط کہتا ہے کرو صبر اثر ہونے تک
ٹمٹماتا ہے سر شام ہی سے دل کا چراغ
جانے کیا ہوگا شب غم کی سحر ہونے تک
کشتیٔ عقل سلامت ہے یم ہستی میں
موجۂ درد محبت کے گزر ہونے تک
میری ہستی کا ہر اک نقش تھا پھیکا پھیکا
عشق میں خون دل و خون جگر ہونے تک
کتنے تاروں نے سحر شب کو بنانا چاہا
خود مگر ڈوب گئے نور سحر ہونے تک
غنچہ کھلنے کو ہے محتاج شعاع خورشید
دل نہ پروان چڑھا ان کی نظر ہونے تک
جانے کتنے ہی ابھی حشر اٹھیں گے رعناؔ
خاک کے ذروں کے خورشید و قمر ہونے تک
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.