آرزو سلگتی ہے ہو کے مس ہواؤں سے
آرزو سلگتی ہے ہو کے مس ہواؤں سے
آگ سی برستی ہے ساونی گھٹاؤں سے
بے بسیٔ آدم کا غم تو خیر سب کو ہے
کون بھیک مانگے گا رحم کے خداؤں سے
نا مراد جینا تھا نا مراد جیتے ہیں
کیا گلہ کرے کوئی اپنے آشناؤں سے
گلستاں کہ زخم دل کہکشاں کہ اشک غم
جی لرزنے لگتا ہے اب حسیں فضاؤں سے
حادثوں کی بستی میں حسن بھی پشیماں ہے
وہ نظر چراتے ہیں آج خود جفاؤں سے
اب نہ دل زمینوں کا اور نہ آسمانوں کا
کر رہا ہے سرگوشی اجنبی خلاؤں سے
انتظار کا عالم کیا بتاؤں اے پرواز
چونک چونک اٹھتا ہوں سانس کی صداؤں سے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.