آساں تو نہ تھا دھوپ میں صحرا کا سفر کچھ
آساں تو نہ تھا دھوپ میں صحرا کا سفر کچھ
با فیض مگر ملتے رہے مجھ کو شجر کچھ
پرسش نہ کرو مجھ سے مرا حال نہ پوچھو
اکھڑا سا ذرا رہتا ہے جی میرا ادھر کچھ
سیلاب نہ ہو تو نہ ہو دل میں بھی تلاطم
پانی تو رہے ڈوب کے مرنے کو مگر کچھ
اتنا ہی غنی ہے جو سمندر تو کہو وہ
ساحل پہ بہا لائے کبھی لعل و گہر کچھ
نازل ہے جو یہ اجلا سا اندھیرا سا فضا پر
ممکن ہے کہ اس شب میں ہو پیوست سحر کچھ
آواز بھی لہرائی تھی ہلچل بھی ہوئی تھی
اک پل کو تو کچھ ابھرا تھا آیا تھا نظر کچھ
شانوں کا یہ خم تجھ میں نئی بات ہے سوربھؔ
آئینہ کبھی دیکھو رکھو اپنی خبر کچھ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.