آشنا نا آشنا یاروں کے بیچ
آشنا نا آشنا یاروں کے بیچ
منقسم ہوں کتنی دیواروں کے بیچ
سانس بھی لیتے نہیں کیا راستے
کیا ہوا بھی چپ ہے دیواروں کے بیچ
ایک بھی پہچان میں آتی نہیں
صورتیں کتنی ہیں بازاروں کے بیچ
دیکھنا ہے کس کو ہوتی ہے شکست
آئنہ ہے ایک تلواروں کے بیچ
کیسی دھرتی ہے کہ پھٹتی بھی نہیں
رقص مجبوری ہے مختاروں کے بیچ
اپنا اپنا کاسۂ غم لائے ہیں
ہے نمائش سی عزاداروں کے بیچ
ہے انہی سے رونق بزم حیات
پھول کھلتے ہیں جو انگاروں کے بیچ
کیا شعاع مہر آتی ہے کبھی
آسماں بر دوش دیواروں کے بیچ
ہم بھی اطہرؔ میرؔ صاحب کے طفیل
شعر کہتے ہیں طرح داروں کے بیچ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.