آسماں گردش میں تھا ساری زمیں چکر میں تھی
آسماں گردش میں تھا ساری زمیں چکر میں تھی
زلزلے کے قہر کی تصویر ہر منظر میں تھی
آپسی ٹکراؤ نے آخر نمایاں کر دیا
ایک چنگاری جو برسوں سے دبی پتھر میں تھی
میں اکیلا مر رہا تھا گھر مرا سنسان تھا
رونق خانہ رفیق زندگی دفتر میں تھی
کر دیا تھا بیوگی کے کرب نے گرچہ نڈھال
جلتی بجھتی آنچ سی اک برف کی چادر میں تھی
ایک ہی فقرے نے سارا جسم چھلنی کر دیا
دھار ایسی طنزیہ الفاظ کے خنجر میں تھی
خود نمائی کم لباسی سب نے مل کر چھین لی
قاتلانہ اک ادا جو حسن کے تیور میں تھی
روک لیتی جو پرندے کو قفس میں اے عتیقؔ
آرزو ایسی نہ کوئی بھی دل مضطر میں تھی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.