آسماں سے کوئی تارا جو سرک جاتا ہے
آسماں سے کوئی تارا جو سرک جاتا ہے
آن کی آن میں خود پر مرا شک جاتا ہے
بھید کیا کیا ہیں ترے شہر میں اور جنگل میں
آدمی جا کے وہاں رستہ بھٹک جاتا ہے
گود میں لیتا ہوں اور گیت سناتا ہوں اسے
چلتے چلتے کبھی دریا بھی تو تھک جاتا ہے
موند لیتے ہیں بنیروں پہ کبوتر آنکھیں
دھیان کی چوک کوئی پنچھی اچک جاتا ہے
وہم خوش قامتی بھی تو نے دیا تھا مجھ کو
ہاتھ اب کیوں مرے شانے سے سرک جاتا ہے
گل تازہ کی طرح وصل کی جب اوس پڑے
رنگ اس شوخ کا کچھ اور بھڑک جاتا ہے
ایسی خاموشی ہے نوزائدہ سیارے پر
اپنی آہٹ سے بھی دل اپنا ٹھٹک جاتا ہے
وقت کے دشت میں اڑتے ہوئے لمحوں کا غبار
آنکھ میں اٹتا ہے ہونٹوں پہ چپک جاتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.