آتش مے سے چراغ حسن روشن ہو گیا
آتش مے سے چراغ حسن روشن ہو گیا
آب اس تصویر سے چہرہ کو روغن ہو گیا
یار کے نظارۂ رخسار کا حائل ہے خط
تیرہ بختی سے ہماری خضر رہزن ہو گیا
دود گردوں شعلہ خور آتش شفق اخگر نجوم
عالم بالا مری آہوں سے گلخن ہو گیا
آہ وہ دل جس کو لبیک حرم سے عار تھا
عشق میں اک بت کے ناقوس برہمن ہو گیا
ہر شجر نخل شہیداں روضہ خواں ہر عندلیب
ایک گل بن مجھ کو ماتم خانہ گلشن ہو گیا
بزم قاتل میں ملا تھا سر کٹانے کا مزا
جملہ تن میں شمع کے مانند گردن ہو گیا
کیوں سفر سے آ کے تو روپوش ہے رشک بہار
عیب کیا گر ارغواں کا پھول سوسن ہو گیا
اک ترے دل کو نہیں تاثیر مطلق اے پری
ورنہ جب آتش میں رکھا موم آہن ہو گیا
اس قدر دود جگر سے میرے واں کاجل جما
بند ماتم خانے کا ہر ایک روزن ہو گیا
نازنین روح کو کیونکر نہ عار آئے بھلا
کس قدر مستعمل اپنا جامۂ تن ہو گیا
کھائی جب ٹھوکر ترے وحشی کو دم یاد آ گیا
اس کو ہر اک سنگ رہ سنگ فلاخن ہو گیا
سینۂ احباب پر پڑتا ہے اپنا ہر قدم
سیر کے قابل نہیں یہ باغ مدفن ہو گیا
کل جو ناسخؔ نے شہیدیؔ کو پنہایا پیرہن
ناتوانی سے گریباں طوق گردن ہو گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.