آتش زخم سے جب سینہ پگھلتا تھا مرا
آتش زخم سے جب سینہ پگھلتا تھا مرا
منہ سے آواز نہیں خون نکلتا تھا مرا
سرخ انگارے دہکتے تھے مری آنکھوں میں
تیری توہین پہ جب رنگ بدلتا تھا مرا
اتنی مانوس تھی احساس کی لو دھوپ کے ساتھ
جسم سورج کے اتر جانے سے جلتا تھا مرا
کم نہ تھی موت کی رفتار سے رفتار سفر
سانس رک جاتے تھے جب قافلہ چلتا تھا مرا
غیر آباد مسافت میں غنیمت تھی زمیں
کارواں گرد کی خوراک پہ پلتا تھا مرا
دوڑتے دوڑتے میدان میں پیاسوں کے لیے
پاؤں کے تلووں سے احساس نکلتا تھا مرا
حبس اندر کی نکلتی تو ہوا رک جاتی
سانس مشکل سے یہ ماحول نگلتا تھا مرا
وحشتی راہ گزر طے نہ ہوئی مجھ سے علیؔ
جسم تو جسم ہے سایہ بھی دہلتا تھا مرا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.