آیا کبھی خیال تو دل سے لپٹ گیا
کیسے سما کے پھر کوئی جیون سے ہٹ گیا
پروا چلی تھی گانٹھ کو آنچل سے باندھنے
دامن گھٹا کا ہاتھ میں آتے ہی پھٹ گیا
بیٹھے ہیں شام اوڑھ کے تنہائیوں میں ہم
اک ہنس اپنی ڈار سے جیسے ہو کٹ گیا
بدلا نگر نے باڑھ کا منہ اپنی سمت سے
ندیا میں بہہ کے گاؤں کا چھوٹا سا تٹ گیا
جھونکا سا تھا کیا چلبلا پریوں کے دیش کا
برسوں کی سادھنا کا وہ آسن الٹ گیا
بھولے سے آیا میگھ کبھی دھوپ کے نگر
من مور ناچنے سے وہ پہلے ہی چھٹ گیا
تلواریں مندروں سے نکل کر جھپٹ پڑیں
صدیوں پرانا سر کا چمکتا مکٹ گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.