آیا تھا دل میں وصل کی تدبیر کا خیال
آیا تھا دل میں وصل کی تدبیر کا خیال
الٹا مگر تھا کاتب تقدیر کا خیال
جس کو ہو اس کی زلف گرہ گیر کا خیال
خاطر میں کیا وہ لائے گا زنجیر کا خیال
ہم عاشقوں کو نالہ و شیون سے کیا غرض
اپنا تو کام ہے تری توقیر کا خیال
ایسا لگا کہ جیسے ہوں پانی پہ کچھ نقوش
آیا مجھے جو آپ کی تحریر کا خیال
شوق ستم میں بھول گیا وہ ہر ایک شے
ترکش کا ہے نہ تیر نہ نخچیر کا خیال
مایوسیوں نے گھیر لیا جس مریض کو
اس کی نظر میں ہیچ ہے اکسیر کا خیال
کیا کیا نہ وسوسوں نے ڈرایا تمام رات
آیا مجھے جو خواب کی تعبیر کا خیال
سوہان روح اس کا تغافل ہوا کرے
ہر جان جاں ہے اس بت بے پیر کا خیال
چاہا تھا جس کو ہم نے پرستش کی حد تلک
اس کی نظر میں اب بھی ہے تعزیر کا خیال
فکر سخن کروں ہوں میں جب بھی کبھی تمیزؔ
ہوتا ہے آس پاس مرے میرؔ کا خیال
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.