آزمائش امتحاں ایثار تک جانا پڑا
آزمائش امتحاں ایثار تک جانا پڑا
جاں نثاری کو رضائے یار تک جانا پڑا
زندگانی کی حدوں کے پار تک جانا پڑا
چاہنے والوں کو آخر دار تک جانا پڑا
آگہی کو بس اصول یار تک جانا پڑا
بے خودی کو احتراماً دار تک جانا پڑا
غنچۂ گل کو بہاریں پیش کرنے کے لیے
باغباں کو سرحدوں کے پار تک جانا پڑا
ہو چکا بیمار غم جب ہر دوا سے لا علاج
چارہ گر کو خود دل بیمار تک جانا پڑا
خوشبوؤں کی جب سے الفت چھوڑ بیٹھا باغباں
خوشبوؤں کو کوچہ و بازار تک جانا پڑا
وقت کے منصف کی دیکھو تو کرم فرمائیاں
شہسواروں کو بھی دشت خار تک جانا پڑا
ناز برداری غزل کی ہم سخن ور کیا کریں
میر کو تو سایۂ دیوار تک جانا پڑا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.