آزمائش کے سمندر سے گزرنا بھی تو ہے
آزمائش کے سمندر سے گزرنا بھی تو ہے
اپنے خوابوں میں نئے رنگوں کو بھرنا بھی تو ہے
تم نے جینے کے لئے آسائشیں سب کر تو لیں
تم یہ شاید بھول بیٹھے ہو کہ مرنا بھی تو ہے
پھول کی چاہت میں تم کو ہوش اتنا بھی نہیں
ان کو پانا ہے تو کانٹوں سے گزرنا بھی تو ہے
تم کسی سے ٹوٹ کر ملتے نہیں ہو ہاں مگر
ایک صدقہ مسکرا کر بات کرنا بھی تو ہے
جانتی ہوں عہد حاضر ہے پراگندہ بہت
پر اسی ماحول میں مجھ کو نکھرنا بھی تو ہے
نشۂ عظمت میں تم کو یاد اتنا بھی نہیں
ایک دن شہرت کے زینے سے اترنا بھی تو ہے
تم نے کانٹے بو دئے راہوں میں سوچا تک نہیں
کتنے لوگوں کو اسی رہ سے گزرنا بھی تو ہے
زندگی کی یہ جو اک ترتیب ہے نصرتؔ یہاں
ان عناصر کو بہر صورت بکھرنا بھی تو ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.