اب بھی گزرے ہوئے لوگوں کا اثر بولتا ہے
اب بھی گزرے ہوئے لوگوں کا اثر بولتا ہے
راہ خاموش ہے امکان سفر بولتا ہے
شاخ سے ٹوٹ کے رشتے نہیں ٹوٹا کرتے
خشک پتوں کی زباں میں بھی شجر بولتا ہے
یہ تو دنیا ہے تسلسل کا عمل جاری ہے
بولنے والے چلے جائیں تو گھر بولتا ہے
ڈھونڈنے جائیں تو ملتا ہی نہیں اس کا پتہ
اور رستہ ہے کہ تا حد نظر بولتا ہے
ان کے چہروں پہ ہے تحریر کہاں کے ہیں یہ لوگ
ان کو جانا ہے کدھر رخت سفر بولتا ہے
آنے والے کسی لمحے کی خبر ہو شاید
سر جھکائے ہوئے اک خاک بہ سر بولتا ہے
درد کی کوئی الگ سے نہیں ہوتی ہے زباں
میری آواز میں اب سارا نگر بولتا ہے
گھر میں بیٹھے ہوئے کیا سوچ رہے ہو اطہرؔ
بند دروازوں میں خود اپنا ہی ڈر بولتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.