اب چھوڑ بھی دو یار بدن ٹوٹ رہا ہے
اب چھوڑ بھی دو یار بدن ٹوٹ رہا ہے
بانہوں میں گرفتار بدن ٹوٹ رہا ہے
اس کبر سے کب کس کو سکوں آیا میسر
مست مئے پندار بدن ٹوٹ رہا ہے
دامن جو ہوا چاک تو کچھ غم نہیں لیکن
اے حسن کی سرکار بدن ٹوٹ رہا ہے
ہر روز پتنگوں سے چراغوں نے کہا یہ
مل کر نہ کرو وار بدن ٹوٹ رہا ہے
برسوں سے مرا جسم دل و جان و جگر سے
ہے بر سر پیکار بدن ٹوٹ رہا ہے
روٹی کے لیے روز تھکن ساتھ ہوں لاتا
اب مت کرو سنگار بدن ٹوٹ رہا ہے
مٹی کے کھلونوں کو اٹھائے ہوئے بڑھیا
ڈھونڈھے ہے خریدار بدن ٹوٹ رہا ہے
انکار زبانی تھا کوئی جنگ نہیں تھی
پھر کیوں مرا بیکار بدن ٹوٹ رہا ہے
چڑھتی ہوئی ہر سانس نہیں آخری ہوتی
اب بس بھی کرو پیار بدن ٹوٹ رہا ہے
کانٹوں کی زمیں سنگ کی بارش میں یوں کاشفؔ
چلنا ہوا دشوار بدن ٹوٹ رہا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.