اب دور آسماں ہے نہ دور حیات ہے
اب دور آسماں ہے نہ دور حیات ہے
اے درد ہجر تو ہی بتا کتنی رات ہے
ہر کائنات سے یہ الگ کائنات ہے
حیرت سرائے عشق میں دن ہے نہ رات ہے
جینا جو آ گیا تو اجل بھی حیات ہے
اور یوں تو عمر خضر بھی کیا بے ثبات ہے
کیوں انتہائے ہوش کو کہتے ہیں بے خودی
خورشید ہی کی آخری منزل تو رات ہے
ہستی کو جس نے زلزلہ ساماں بنا دیا
وہ دل قرار پائے مقدر کی بات ہے
یہ موشگافیاں ہیں گراں طبع عشق پر
کس کو دماغ کاوش ذات و صفات ہے
توڑا ہے لا مکاں کی حدوں کو بھی عشق نے
زندان عقل تیری تو کیا کائنات ہے
گردوں شرار برق دل بے قرار دیکھ
جن سے یہ تیری تاروں بھری رات رات ہے
گم ہو کے ہر جگہ ہیں زخود رفتگان عشق
ان کی بھی اہل کشف و کرامات ذات ہے
ہستی بجز فنائے مسلسل کے کچھ نہیں
پھر کس لیے یہ فکر قرار و ثبات ہے
اس جان دوستی کا خلوص نہاں نہ پوچھ
جس کا ستم بھی غیرت صد التفات ہے
یوں تو ہزار درد سے روتے ہیں بد نصیب
تم دل دکھاؤ وقت مصیبت تو بات ہے
عنوان غفلتوں کے ہیں قربت ہو یا وصال
بس فرصت حیات فراقؔ ایک رات ہے
- کتاب : Gul-e-Naghma (Pg. 104)
- Author : Firaq Gorakhpuri
- مطبع : Maktaba Farogh-e-urdu Matia Mahal Jama Masjid Delhi (2006)
- اشاعت : 2006
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.