اب دل بجھا بجھا ہے مجھے مار دیجیے
اب دل بجھا بجھا ہے مجھے مار دیجیے
جینے میں کیا رکھا ہے مجھے مار دیجیے
دل کے مرض کا اب نہیں دنیا میں کچھ علاج
یہ عشق لا دوا ہے مجھے مار دیجیے
میں بے گناہ ہوں تو یہی ہے مری سزا
یہ فیصلہ ہوا ہے مجھے مار دیجیے
ڈرتا ہوں آئنے کو لگانے سے ہاتھ میں
کہتا یہ آئینہ ہے مجھے مار دیجیے
میں ہوں وفا شعار یہاں جی کے کیا کروں
یہ دور بے وفا ہے مجھے مار دیجیے
واللہ بے نشہ نہ رہی میری کوئی شام
اکھڑا ہوا نشہ ہے مجھے مار دیجیے
اے جان دل بہار تیری بے رخی کے بعد
اب میرے پاس کیا ہے مجھے مار دیجیے
تنہائیوں کی قید سے گھبرا کے ایک شخص
آواز دے رہا ہے مجھے مار دیجیے
ایک بات جوش جوش میں سچ کہہ گیا ہوں میں
تم کو برا لگا ہے مجھے مار دیجیے
تنہائی میری اس سے بھی دیکھی نہیں گئی
اس نے بھی یہ کہا ہے مجھے مار دیجیے
رشک چمن بنا ہے یہ ارپتؔ مرا وجود
خوشبو کو چھو لیا ہے مجھے مار دیجیے
- کتاب : Word File Mail By Salim Saleem
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.