اب احترام ہی کہیے اسے کہ ڈر کے گئے
اب احترام ہی کہیے اسے کہ ڈر کے گئے
ترے دیار میں سارے سوار اتر کے گئے
ہے برگ و بار کا گرنا تو قرض موسم کا
ہوائے تند پرندے کہاں شجر کے گئے
ہو شہر شہر خموشی کا کچھ سبب شاید
مگر وہ شور و شغب بھی تو بحر و بر کے گئے
مری ہی جان کے دشمن ہیں شاہکار مرے
مرے خلاف کرشمے مرے ہنر کے گئے
ہر اک سوال کا دیتے ہیں صاف صاف جواب
وہ کیا گئے کہ بہانے اگر مگر کے گئے
کسی کے ہاتھ میں پتھر کہاں وہ صحن میں پیڑ
ہمارے عہد سے موسم شجر حجر کے گئے
ہمیں بھی کوچۂ قاتل کا تھا چلن معلوم
اسی لیے تو گلی میں تری سنور کے گئے
تو اپنے چاک گریباں کا آ گیا ہے خیال
تماشا دیکھنے جب لوگ ادھر ادھر کے گئے
نہ عشق ہے وہ نہ غالب نہ آستاں نہ وفا
اسی کے ساتھ ہی قصے بھی سنگ و سر کے گئے
سفر میں دیر تلک ہم سفر تھا گھر فاروق
نظر میں دور تلک عکس بام و در کے گئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.