اب ہمیں تیری تمنا نہیں ہے
آنکھ کو ذوق تماشا نہیں ہے
جانے کیوں ڈھونڈ رہے ہیں ہم تم
وہ جو تقدیر میں لکھا نہیں ہے
یوں سر راہ گزر بیٹھے ہیں
جیسے ہم کو کہیں جانا نہیں ہے
پھر یہ کیوں خاک سی اڑتی ہے یہاں
دل کے اندر کوئی صحرا نہیں ہے
شہر والو کبھی اس کو بھی پڑھو
وہ جو دیوار پہ لکھا نہیں ہے
اس کو کمتر نہ سمجھنا لوگو
وہ جسے خواہش دنیا نہیں ہے
ہم کو ہے قرب میسر کا نشہ
ہم کو اندیشۂ فردا نہیں ہے
یہ گزرتا ہوا اک سایۂ وقت
قاتل عمر ہے لمحہ نہیں ہے
تہہ میں رشتوں کی اتر کر دیکھو
کون اس دہر میں تنہا نہیں ہے
ہجر کا تجھ کو ہے شکوہ تو نے
معنیٔ عشق کو سمجھا نہیں ہے
گم ہوئے کتنے ہی بے نام شہید
جن کا تاریخ میں چرچا نہیں ہے
تو ہے بیگانہ تو کیا تجھ سے گلہ
کوئی دنیا میں کسی کا نہیں ہے
کر گئے خوف خزاں سے ہجرت
پیڑ پر کوئی پرندہ نہیں ہے
زیست میں ہم نے بچا کر کچھ وقت
کبھی اپنے لئے رکھا نہیں ہے
ہم ہیں اس عہد میں زندہ جس کا
جسم ہی جسم ہے چہرہ نہیں ہے
تم نہ ہو گے تو جئیں گے کیسے
ابھی اس بارے میں سوچا نہیں ہے
کیسی محفل یہ سجی ہے نازشؔ
کوئی بھی میرا شناسا نہیں ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.