اب علاج دل بیمار سحر ہو کہ نہ ہو
اب علاج دل بیمار سحر ہو کہ نہ ہو
زندگی سایۂ گیسو میں بسر ہو کہ نہ ہو
مجھ کو رکھنا ہی تھا آداب محبت کا خیال
میرے شانے پہ کل اس شوخ کا سر ہو کہ نہ ہو
آج ہر بات مری قول خداوندی ہے
کل مری بات پہ یوں جنبش سر ہو کہ نہ ہو
جانے کس موڑ پہ لے آئی مجھے عمر رواں
سوچتا ہوں یہ تری راہ گزر ہو کہ نہ ہو
کیوں نہ جی بھر کے اب اشکوں سے چراغاں کر لوں
یوں کوئی رات پھر آنکھوں میں بسر ہو کہ نہ ہو
سائے میں جن کے اندھیروں کے سوا کچھ بھی نہیں
ان چراغوں کو بجھا دوں گا سحر ہو کہ نہ ہو
میرے غم خانے میں آتے ہوئے امید کی ضو
پوچھتی ہے کہ ادھر میرا گزر ہو کہ نہ ہو
آج جو کہنا ہو اے حسن خود آرا کہہ لے
کل تری بزم میں اقبالؔ عمر ہو کہ نہ ہو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.