اب اس سے ملنے کی امید کیا گماں بھی نہیں
اب اس سے ملنے کی امید کیا گماں بھی نہیں
زمیں گئی تو گئی سر پہ آسماں بھی نہیں
بجھا بجھا سا ہے دل کا الاؤ برسوں سے
کسی کی یاد کا آنکھوں میں اب دھواں بھی نہیں
نئی صدی کے سفر میں بھی ہم اکیلے ہیں
ہوا کے دوش پہ خوشبو کا کارواں بھی نہیں
تمہیں بتاؤ یہاں کس طرح جئیں ہم لوگ
تمہارے شہر میں غزلوں کی اک دکاں بھی نہیں
گھروں میں سہم کے بیٹھے ہوئے ہیں سب بچے
سمندروں پہ کہیں ریت کا مکاں بھی نہیں
اس احتیاط سے آنکھوں میں کون آیا تھا
ثبوت کے لیے پلکوں پہ اک نشاں بھی نہیں
اک ایسے راز کی مانند جی رہا ہوں شکیلؔ
کہ جس کا میرے سوا کوئی رازداں بھی نہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.