اب کسی طرح بھی ہوگی نہ سحر جانے دے
اب کسی طرح بھی ہوگی نہ سحر جانے دے
رد خورشید ہے شمعوں کا نگر جانے دے
ڈھ گئے سارے گھروندے جو بنائے تھے کبھی
سیپیاں ریت سے بھر جاتی ہیں بھر جانے دے
چوٹ پر چوٹ لگانے سے تھکے گا تو بھی
ذرا سستا لے ذرا زخم تو بھر جانے دے
اڑ گئیں کیسے چھتیں گل ہوئے کس طرح چراغ
سب کھلے گا ذرا طوفاں تو گزر جانے دے
دیکھنا کتنے صدف ہوں گے کنار دل پر
یہ جو افکار کا دریا ہے اتر جانے دے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.